قیامت کب اور کیسےآئے گی؟

 اس سوال کا جواب نہ صرف ہر مذہب کے ماننے والے تلاش کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز سے اس کا جواب دیتے ہیں بلکہ سائنسدان بھی اس معاملے پر ریسرچ کر رہے ہیں گو کہ ان کی ریسرچ کا زاویہ تھوڑا سا مختلف ہےآج ہم  اسی کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کریں  گے۔

ہماری زمین اور یہ نظام شمسی کیسے بنا؟

 گزشتہ کئی دہائیوں سے سائنسدان اس بارے میں ریسرچ کر رہے ہیں کہ آخر ہماری زمین اور یہ نظام شمسی کیسے بنا اور سورج کیسے وجود میں آیا ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے لیکن اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ ایک بنی بنائی چیز کے ہوتے ہوئے اس کی ابتدائی حالت تک کہ ٹریسز تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن سائنسدان یہ کام کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے سائنسدانوں نے بہت سارے طریقے وضع کر رکھے ہیں جس میں خود ہماری زمین کا مطالعہ سورج کا مطالعہ دوسرے سیاروں کی مٹی کا مطالعہ اور زمین کے آس پاس خلاء میں تیرنے والے مختلف شہاب ثاقب کے متعلق تحقیق شامل ہیں تاکہ ان میں موجود اجزاء کا پتہ لگا کر یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ہمارا سورج اور یہ نظام شمسی کس طرح سے تشکیل پایا۔ جب سائنسدانوں نے اس بارے میں تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کیا اور یہ جاننا چاہا کہ سورج یا سورج جیسے دوسرے ستارے جنہیں جی ون سیکونس سٹارز بھی کہا جاتا ہے یہ ستارے دراصل کیسے پیدا ہوتے ہیں خوش قسمتی سے سائنسدانوں کو پرسوس نامی ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ایسا نیو بولا میسر آگیا جو ایک لحاظ سے نوزائدہ ستاروں کی فیکٹری ہے پرسوس نامی ستاروں کے جھرمٹ میں واقعی یہ نیبولا اس قدر بڑا ہے کہ اس کو پلرز آف کرییشن کا نام دیا جاتا ہے یعنی تخلیق کے ستون جب 70 ستارے بن رہے تھے۔


ستاروں کا مشترکہ نظام جس میں دو یا دو سے زائد ستارے بھی ہو سکتے ہیں۔

 سائنسدانوں نے جب ان میں چھانٹی کر کے سورج جیسے ستاروں کے بننے کا مطالعہ کیا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ حیرت انگیز طور پر یہ سورج جیسے ستارے یعنی سورج جتنے سائز کے ستارے اکیلے نہیں بنتے بلکہ وہ ایک بائنری سسٹم میں بنتے ہیں یعنی دو ستاروں کا ایک مشترکہ نظام جس میں دو یا دو سے زائد ستارے بھی ہو سکتے ہیں یہ خبر سائنسدانوں کے لیے بے حد غیر متوقع تھی جب انہوں نے مزید گہرائی سے اپنے سولر سسٹم یعنی اپنے نظام شمسی کا موازنہ ان ستاروں سے کیا جو اس وقت نئے نئے بن رہے ہیں تو انہوں نے دیکھا کہ سورج جتنے سائز کے ستارے اکیلے واقعی کبھی نہیں بنتے بلکہ ان کا ایک ہمسایہ ستارہ ضرور ہوتا ہے جو ان کے ساتھ ہی ساتھ گردش کرتا ہے اس کی ایک مثال ہم الفا سنچوری نامی ستاروں کے سسٹم سے لے سکتے ہیں جو ہم سے تقریبا ساڑھے چار نوری سال کے فاصلے پر ہیں الفاسنچوری نامی سسٹم اس لحاظ سے بھی عام ہے کہ ان دو ستارہ سسٹم میں دو ایسے سیارے بھی دریافت ہو گئے ہیں جہاں زندگی پائے جانے کا امکان بھی موجود ہے الفا سنچوری میں وہ تمام سیارے مشترکہ طور پر دو ستاروں کے گرد گردش کرتے ہیں اور وہ دونوں ستارے ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں ان میں سے ایک ستارہ چھوٹا ہے جبکہ ایک ستارہ جو بڑا ہے وہ سورج جتنا ہے لیکن اس نظام شمسی کو دیکھتے ہوئے جب ماہرین نے سائنسی بنیادوں پر حساب کتاب کیا تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سورج کے ساتھ بننے والا ستارہ سورج سے بڑا ہوگا جب انہوں نے مزید گہرائی میں سٹڈی کی اور زمین پہ آنے والے مختلف قیامت انگیز زمانوں کا مطالعہ کیا تو انہوں نے جانا کہ زمین پہ پانچ ایسے دور گزر چکے ہیں جب زمین سے پوری طرح سے زندگی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔

 کیا واقعی شہاب ثاقب نے ڈائناسارز کا خاتمہ کر دیا تھا؟

 ان تمام پانچ ادوار کے درمیان دو کروڑ 50 لاکھ سال سے لے کر دو کروڑ 70 لاکھ سال کے درمیان فاصلہ ہے یعنی تقریبا ڈھائی کروڑ سال بعد یعنی 25 ملین سے 27 ملین سال بعد زمین پہ کوئی نہ کوئی ایسا شہاب ثاقب آ کے گرتا ہے جس کا سائز اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ پوری زمین سے زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے جیسا کہ ایک ایسے ہی شہاب ثاقب نے ڈائناسارز کا خاتمہ کر دیا تھا ۔

زمین پہ زندگی کا خاتمہ شہاب ثاقب۔

تو دوستو جب سائنس دانوں نے ایسے ایسٹرائڈز جن کا سائز اتنا بڑا ہو کہ وہ زمین جیسے سیارے پر سے زندگی کا پوری طرح سے خاتمہ کر سکے ان کی تلاش کی تو انہوں نے دیکھا کہ ایسے شہاب ثاقب تو ہمارے سولر سسٹم میں موجود ہی نہیں ہے جتنے بڑے سٹرائڈ کی ضرورت زمین پہ زندگی کا خاتمہ کرنے کے لیے ہوگی ہمارے سولر سسٹم میں موجود تقریبا تمام شہاب ثاقب کا سائز اس سے کم ہے جیسا کہ ڈائناسورز کا خاتمہ کرنے والے شہاب ثاقب کا سائز زمین پہ موجود سب سے بڑے پہاڑ یعنی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بڑا تھا اور وہ 10 کلومیٹر لمبا اور چوڑا اسٹرائڈ تھا اور اس نے زمین سے ٹکرا کر پوری زمین سے ڈائناسور کا خاتمہ کر دیا تھا اور دوستو اس میں سب سے زیادہ حیرت والی بات یہ ہے کہ اس قدر بڑے بڑے سائز کے ایسٹرائڈز صرف اور صرف نظام شمسی کے آخری اور باہری کناروں پہ پائے جاتے ہیں وہ کنارے کہ جن کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ برف کے جمع ہوئے بڑے بڑے ٹکڑوں پہ مشتمل ہیں اور زمین پر سمندروں میں اور زمین کے اندر موجود تمام کا تمام پانی بھی دراصل ادھر سے آیا ہے وہیں پہ ایسے بڑے سائز کے سٹرائڈز پائے جاتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس قدر دور سے آنے والے سٹرائڈز آخر پورے نظام شمسی میں کیوں نہیں پائے جاتے اور وہ آکر زمین سے کیسے ٹکرا گئے۔

سورج کا جڑوا ستارہ نیمیسز ۔

 دوسرے سیاروں پہ پائے جانے والی تباہی کی باقیات میں بھی ایسے سٹرائڈز کے نشان اور آثار موجود ہیں کہ اس قدر بڑے سٹرائڈز دوسرے سیاروں سے بھی ٹکراتے رہیں تو آخر وہ اتنی دور سے نظام شمسی کے اندرونی حصے میں کیسے آئے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دراصل سورج کا جڑوا ستارہ جس کا کوڈ نام نیمیسز رکھا گیا ہے وہ ہر 25 سے 27 ملین سال بعد یعنی ڈھائی کروڑ سے پونے تین کروڑ سال بعد نظام شمسی کی طرف آتا ہے اور اس کی کشش ثقل کی وجہ سے یعنی گریویٹیشنل پل کی وجہ سے نظام شمسی کے باہر کناروں پر موجود ایسٹرائڈز بیلٹ متاثر ہوتی ہیں اور اس وجہ سے یہ سٹرائڈ زمین کی طرف آتے ہیں اور دوسرے سیاروں کی طرف بھی جاتے ہیں ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ دراصل یہ ستارہ جس کا کوڈ نام نیمسز رکھا گیا ہے اور جس کو ابھی تک ڈھونڈا نہیں جا سکا وہ ہماری ملکی وے گلیکسی میں کس طرف موجود ہے دراصل زمین پہ یہی ستارہ موت کا پیغمبر ثابت ہو سکتا ہے ابھی تک زمین کی معلوم تاریخ میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ ستارہ جب بھی نظام شمسی کی طرف آیا ہے یہ نظام شمسی کے باہری کناروں کو چھوتا ہوا باہر سے نکل گیا ہے اور اگر کبھی اس ستارے کا راستہ نظام شمسی کے بیچ میں سے ہو کر گزرا تو دو بڑے بڑے ستاروں کے درمیان ہونے والے کشش ثقل کی جنگ میں تمام کے تمام سیارے تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

کیا قیامت نزدیک ہے؟

 اور زمین پہ چٹانوں اور پتھروں کی بارش ہو جائے گی جس وجہ سے زمین سے زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور زمین کے تمام سمندر بھاپ بن کر اڑ جائیں گے یہ وہی منظر نامہ ہے جو ہم قیامت کے بارے میں اپنی مذہبی کتابوں اور عقائد میں پڑھتے ہیں اب یہاں پہ ایک اور بڑا اور عام سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سورج کا یہ جڑواں ستارہ جسے نمیسز کا نام دیا گیا ہے کہاں موجود ہیں سائنس دانوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ ستارہ جہاں پہ بھی موجود ہوا اکیلا ہوگا اور بہت امکان ہے کہ اس کے ساتھ بھی اپنا ہی سیاروں کا ایک پورا نظام ہوگا جس طرح سورج کے گرد سیاروں کا نظام ہے جس میں زمین بھی شامل ہیں ایسا اس لیے مانا جاتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ سیاروں کا یہ نظام نہ ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ یہ بہت پہلے ہی نظام شمسی کے بیچ میں سے گزر چکا ہوتا اور پورا نظام شمسی تہہ و بالا ہو گیا ہوتا لیکن اپنے ستاروں کے نظام کی وجہ سے اس کے ارد گرد بھی کشش ثقل کا ہیلیوسفیئر یعنی وہ علاقہ جہاں تک اس کی کشش ثقل اثر کرتی ہے کافی بڑا ہے جس کی وجہ سے ماہرین بھی یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے یہ ستارہ سورج سے سائز میں قدرے بڑا ہو۔ اگر یہ ستارہ ہمیں مل جاتا ہے تو اس کے کورس اور اس کی ہسٹری کو دیکھ کے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ زمین پہ زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی نظام شمسی کیسے بنا اور سورج کیسے وجود میں آیا فی الحال یہ سب اندازے ہیں اور ابھی تک ایسے کسی ستارے کو ڈھونڈا نہیں جا سکا اگر یہ ستارہ دوبارہ زمین یا نظام شمسی کے قریب سے گزرتا بھی ہے تب بھی اس معاملے کو کم سے کم 40 لاکھ سال باقی ہیں یہ تو سائنسدانوں کا ماننا ہے لیکن ہم نے اب تک جتنا سائنس کا مطالعہ کیا ہے اس کے تناظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے عقائد کے مطابق قیامت کا وقت کسی بھی طرح سے مقرر نہیں کیا جا سکتا اس لیے قیامت کب اور کیسے آئے گی یہ حتمی طور پر معلوم نہیں کہا جا سکتا۔